....
[ New messages · Members · Forum rules · Search · RSS ]
  • Page 1 of 1
  • 1
Forum » اعتراضات » علما پر اعتراضات کا جواب » Shan e Ulama p2
Shan e Ulama p2
AdminDate: Thursday, 2009-05-07, 1:45 PM | Message # 1
Private
Group: Administrators
Messages: 7
Awards: 0
Reputation: 0
Status: Offline
[r]شمس عباسي

تحريك پاكستان اور قيام پاكستان كي جدوجهد ميں علماء كي سرگرم شركة ايك ايسي كھلي حقيقة ہے جس كا انكار دن كے بارہ بجے سورج كا انكار كرنے كے مترادف ہے. يہ واقعه ہے كہ تحريك پاكستان كو مسلمين برصغير ميں قبولية عامه اسي وقت حاصل هوئي اور اس نے ايك عوامي تحريك كي شكل اسي وقت اختيار كي جب هند كے جيد علماء ومشايخ نے اپنے عقيدة مندوں سميت اپنا وزن اس كے پلڑے ميں ڈالا. اگرچہ يہ بھي حقيقة ہے كہ علماء كے ايك گروہ نے جن كا تعلق جميعة علماء هند سے تھا اور جن ميں وقت كي نابغه شخصيات بھي شامل تھيں, خاص وجوه كي بنا پر تقسيم هندوستان كي مخالفة كي تهي, ليكن جيد علماء كي ايك وقيع جماعة نظريه متحده قومية كي محالف اور دو قومي نظريے كي پر زور حامي تھي اور اس نے اهل الاسلام كيلئے ايك عليحده اسلامي مملكة كي كھل كر اور پر جوش انداز ميں وكالة كي اور تحريك پاكستان ميں بڑھ چڑھ كر حصه ليا.

حكيم الامة حضرة مولانا اشرف علي تهانوي رحمه الله هندوستان ميں اسلام اور مسلمانوں كے وجود كيلئے روز افزوں خطرات اور مشكلات كے پيش نظر بہت پہلے سے هندوستان ميں ايك خالص اسلامي مملكة كي آرزو دل ميں پالے ھوئے تھے اور اس كا ايك واضح خاكہ بھي اپنے ذهن ميں ركھتے تھے. پھر جب مسلم ليگ كے نام سے مسلم قوم كي ايك الگ سياسي جماعة وجود ميں آئي تو انہيں اس ميں اپني آرزو كو آگے بڑھانے كيلئے روشني كي كرن دكھائي دي. حضرة تهانوي رحمه الله متحده قومية اور كانگريس كے ساتھ مل كر آزادي كي جدوجهد كو اهل الاسلام كيلئے نقصان ده خيال كرتے تھے. ان كا دوٹوك موقف تھا كہ غلبه كفار كي صورة ميں ان كے ساتھ كسي جدوجهد ميں شريك ھونا اسلام اور مسلمين كيلئے كبھي بھي مفيد نہيں ھوسكتا. وہ اس مقصد كے لئے علماء كي الگ اور تنہا جدوجهد كو بهي نتيجہ خيز نہيں سمجھتے تھے, اس لئے اس كے حق ميں بھي نہيں تھے. ان كا موقف تھا كہ وہ بے عمل مسلمان جو ميدان سياسة كے مشاق ہيں اور وہ اس ميدان ميں پہلے سے اترے ھوئے ہيں ان پر محنة كر كے اور ان كي ذهني اصلاح وتربية كے ذريعے انہيں هم خيال بنا كر اسلامي مملكة كے قيام كے اعلى مقصد كي طرف پيش رفت كي جائے.

چنانچہ انہوں نے اپنے خاص معتمد اور تربية يافتہ علماء كي ايك جماعة كو قائد اعظم سے رابطوں اور انہيں پاكستان ميں اسلامي نظام كے نفاذ پر آماده كر كے ان سے اس بارے ميں يقين دہاني حاصل كرنے پر لگاديا. اس سلسلے ميں انہوں نے قائد اعظم محمد علي جناح كے پاس متعدد بار علماء كے وفود بھي بھيجے اور خط وكتابة كے ذريعے اصلاح وتفهيم كا سلسله بهي جاري ركھا, جس كے نتيجے ميں قائد اعظم نے پاكستان ميں اسلامي قانون كے نفاذ كي بار بار يقين دہاني كرائي اور كھلے جلسوں ميں بھي اس كا اعلان كيا. قائد اعظم كي طرف سے اس يقين دہاني كے بعد حضرة حكيم الامة تهانوي رحمه الله نے مسلم ليگ كي تائيد ميں ايك تفصيلي فتوى جاري كيا جو امداد الفتاوى كي جلد چار ميں درج ہے. حضرة تھانوي رحمه الله نے كھل كر مسلم ليگ كي حماية كي اور اپنے معتقدين ومتوسلين كو اس ميں داخل هو كر اس كي اصلاح كرنے كي واضح هداية فرمائي. يہ اسي كا نتيجہ تھا كہ آپ كے لاكھوں عقيدة مندوں نے جن ميں سينكڑوں كي تعداد ميں علماء بھي شامل تھے تحريك پاكستان ميں بڑھ چڑھ كر حصه ليا اور مطابه پاكستان كي بھرپور تاييد وحماية كي. خصوصية كے ساتھ شيخ الاسلام حضرة مولانا شبير احمد عثماني, مولانا ظفر احمد عثماني, مفتي محمد شفيع ديوبندي, مولانا مرتظى حسن چاندپوري, مولانا شاه عبد الغني پھولپوري, علامه سيد سليمان ندوي, مولانا مفتي محمد حسن امرتسري, مولانا خير محمد جالندهري, مفتي عبد الكريم گمتھلوي اور مولانا قاري محمد طيب قاسمي رحمهم الله تعالى نے تحريك پاكستان كو كاميابي سے همكنار كرنے كيلئے بھرپور كردار ادا كيا. انہوں نے هندوستان كے قريه قريه بستي بستي گھوم كر چپے چپے اور گوشے گوشے تك پہنچ كر اپني پر اثر تقارير كے ذريعے مسلمين كو تحريك پاكستان كے دھارے ميں شامل كرنے كيلئے ايسي انتھك محنة كي جو اپني مثال آپ ہے.

 
AdminDate: Thursday, 2009-05-07, 1:46 PM | Message # 2
Private
Group: Administrators
Messages: 7
Awards: 0
Reputation: 0
Status: Offline
تحريك پاكستان كے دوران دو قومي نظريه كے حامي علماء اور مسلم ليگي قيادة ميں روابط دو طرفه خواہش پر مبني تھے. علماء كي ضرورة يہ تھي كہ وہ مسلم ليگي قائدين كو همنوا بنا كر هندوستان كے مسلمانوں كي انگريزوں اور هندوؤں دونوں كي غلامي سے آزادي اور ايك ايسے الگ اسلامي ملك كے قيام كي ديرينہ خواہش كو آگے بڑھائيں جس ميں اس خطے كے مسلمان قرآن وسنة كے نظام كے تحت آزادانہ زندگي بسر كر سكيں اور مسلم ليگي قائدين كي ضرورة يہ تھي كہ وہ علماء كو اپنے ساتھ ركھيں كيونكہ وہ علماء كي تاييد حاصل كئے بغير اس تحريك كو عوامي تحريك كا رنگ دينے اور مسلمين كي اكثرية كا اعتماد حاصل كر كے انہيں اپنا حامي بنانے ميں مشكلات محسوس كر رہے تھے. مسلم ليگي قائدين بشمول قائد اعظم محمد علي جناح اپني وضع قطع بود وباش اور طرز زندگي كے لحاظ سے اسلام كي ترجماني نہيں كرتے تھے. وہ جس اسلام كو پاكستان كي بنياد بتاتے تھے اور جن اسلامي تعليمات كو پاكستان ميں رائج كرنے كے وعدے اور اعلان كرتے تھے ان كا رنگ وعكس ان كي اپني زندگيوں ميں يا تو نظر ہي نہيں آتا تھا يا واضح اور نمايا نہيں تھا اس لئے ديني مزاج ركھنے والے مسلمان ان كے وعدوں اور اعلانات كے بارے ميں تذبذب كا شكار تھے. بلخصوص جب علماء كي ايك جماعة تقسيم هندوستان كي مخالف بھي تھي اور وہ مسلم ليگي قائدين كے اسلامي نظام قائم كرنے كے متعلق وعدوں كو برملا مشكوك ٹھراتي تھي. مطالبه پاكستان كي تحريك ميں بلا شبه يہ ايك روڑا تھا جو مذكور بالا علماء كے اس مطالبے كا ساتھ دينے سے دور هوا. مسلم ليگي قائدين كي طرف سے علماء سے رابطوں اور ان كے مطالبات كي پزيرائي كي وجہ سياسي مصلحة هو يا ايسا بربنائے اخلاص كيا گيا هو بہرحال تاريخي طور پر يہ بات ثابت ہے كہ دونوں طرف سے روابط اور ايك دوسرے كي ضرورة كا احساس بدستور موجود تھا جو ايك مشتركه مؤثر جدوجہد كا باعث بنا اور يہ مشتركه كوشش ہي تشكيل پاكستان كي منزل تك پہنچنے كا سبب بنيں.

جو لوگ تحريك پاكستان ميں علماء ديوبند كے كردار كي نفي كرتے ہيں يا اسے دھندلا كر پيش كرنے كي كوشش كرتے ہيں وہ قائد اعظم محمد علي جناح اور لياقت علي كي طرف سے ان علماء كي خدمات جليله كے برملا اور بار بار اعتراف كي كيا توجيه كريں گے؟ ان علماء حصرات نے مسلم ليگ كے اندر جو نئي روح پھونكي تھي اور ان كے دوروں اور تقريروں نے حالات كو مسلم ليگ كے حق ميى جس طرح پلٹ كر قيام پاكستان كي منزل كو ممكن اور سهل بنايا تھا, اس كا قائد اعظم اور لياقت علي خان رحمه الله كو پورا پورا احساس بھي تھا اور وہ اس كے معترف بھي تھے. يہي وجہ ہے كے جب سرحد اور سلہٹ ميں ريفرنڈم كرانے كا نازك مرحله آيا تو ان كي نظر علماء كي طرف ہي گئي اور اس مهم كو سر كرنے كيلئے حضرة علامه شبير احمد عثماني رحمه الله اور مولانا ظفر عثماني رحمه الله كي شحصيتوں كا سہارا ليا گيا. ان دونوں حصرات نے پيرانه سالي اور صحة كي كمزوري كے باوجود سرحد اور سلہٹ كے كونے كونے پہنچ كر دو قومي نظريے والے موقف كو اس مؤثر اور بليغ انداز ميں وہاں كے مسلمين كے ذهن نشين كرايا كے سرحد ميں خان برادران كي حكومة اور سلہٹ ميں جميعة علماء هند كے گھرے اثرات كے باوجود دونوں جگہ كے مسلمانوں نے كانگريس كے متحده قومية كے نظريے كے خلاف مسلم ليگ كي حماية كي اور وہ ريفرينڈم جيت گئي. يہ بات شك سے بالا تر ہے كہ سرحد اور سلہٹ ريفرنڈم ميں مسلم ليگ كي كاميابي ان ہي علماء كي كاوشوں كا نتيجہ تھي اگر يہ دونوں حضرات وہاں تشريف لے جا كر مسلم ليگ كا كيس مؤثر انداز سے پيش نہ كرتے اور اس كے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال نہ كرتے تو مسلم ليگ يہ ريفرنڈم خطعاً نہيں جيت سكتي تھي, يہ اسي كا نتيجہ تھا كہ ريفرنڈم كي كاميابي كے بعد جب مولانا شبير احمد عثناني اور مولانا ظفر احمد عثماني رحمهما الله نے قائد اعظم اور لياقت علي خان سے ملاقات كر كے مباركباد پيش كي تو انہوں نے انہيں جواباً مباركباد دي اور اسے انہي كي محنة اور كوششوں كا ثمر قرار ديا, اس سے بھي بڑھ كر تحريك پاكستان ميں علماء ديوبند كے شاندار كردار اور ان كي ناقابل فراموش خدمات كا ثبوت يہ ہے كہ پاكستان جب معرض وجود ميں آ گيا تو اس كي پہلي پرچم كشائي قائد اعظم نے ان دونوں حضرات سے كرائي, مغربي پاكستان ميں حضرة علامه شبير احمد عثماني رحمه الله اور مشرقي پاكستان ميں حضرة مولانا ظفر احمد عثماني رحمه الله نے چودہ اگست كو رات بارہ بج كر ايك منٹ پر پاكستان كي پہلي پرچم كشائي كي. اس سے بڑھ كر علماء ديوبند كي خدمات كا ثبوت اور اعتراف اور كيا هو سكتا ہے. جو لوگ محض پروپوگينڈے كے زور پر علماء كي ان ناقابل فراموش خدمات كو دھندلانا چاہتے ہيں وہ حقائق كے اعتراف كي جرأة سے عاري ہيں اور تنگ نظري اور بے بصيرتي كے شكنجے ميں جكڑے هوئے ہيں. تحريك پاكستان ميں علماء ديوبند كے كردار كي نفي كرنے والے لوگ دراصل ان لوگوں كے نظرياتي وارث ہيں جنہيں نہ اسلامي ورثے اور مسلمانوں كے وجود كو لاحق خطرات كا كوئي انديشہ تھا نہ نظريه پاكستان سے كوئي ذهني وابستگي, نہ تحريك پاكستان كي عملي جدوجہد ميں ان كا كوئي حصه تھا اور نہ كاروان تحريك سے كوئي عرض, وه نہ اس عظيم جدوجہد كے پس منظر كا ادراك ركھتے تھے اور نہ اس كے اصل مقاصد سے آگاہي, يہ صرف دودھ پينے اور پكي پكائي كھانے سے غرض ركھنے والے مجنوں تھے, ايسے مجنوں جو عملي جدوجہد اور قربانيوں كے وقت تو كسي گوشے ميں دبك كہ بيٹھ جاتے ہيں يا تماشائيوں كي طرح پيچھے ہٹ كر چلتے ہيں, ليكن كاميابي حاصل هونے پر سامنے آ نمودار هوتے ہيں اور اس تحريك كے وارث اور دعوے دار بن كر اس كے ثمرات پر جھپٹا مارنے كي كوشش كرتے ہيں. پاكستان كے آغاز سے لے كر اب تك ايسے ہي مفاد پرست اور خود غرض عناصر پاكستان كے اقتدار كے سوتوں پر قابض يا اثر انداز رہے ہيں, جنہوں نے جونك كي طرح اس سے چمٹ كر اس كا خون تو خوب چونسا ليكن اسے اس كي نظرياتي منزل كي جانب بڑھنے نہيں ديا.
ہيں؟

 
AdminDate: Thursday, 2009-05-07, 1:46 PM | Message # 3
Private
Group: Administrators
Messages: 7
Awards: 0
Reputation: 0
Status: Offline
[r]يہ مفاد پرست گروہ علماء حق كي خدمات كا انكار اور گاہے بگاہے انہيں پاكستان كي مخالفة كے طعنے دے كر انہيں بدنام كرنے كي كوشش كرتا آيا ہے, ليكن اس نے خود اپني حركتوں پر كبھي غور نہيں كيا كہ وہ آج تك اس ملك ميں دو قومي نظريے كے عملي اطلاق كي راہ ميں ركاوٹ بن كر كانگريسي علماء اور سياستدانوں سے بڑھ كر پاكستان مخالف كا كردار ادا كر رہا ہے. متحده قومية كي حماية اور تقسيم هند كي مخالفة كرنے والے علماء نے بھي پاكستان كے بن جانے كے بعد اس كي حفاظة اور استحكام كو ضروري قرار ديا اور پاكستان كے علماء اور عامة المسلمين كو اس كے استحكام اور مضبوطي كيلئے كوشش ومحنة كرنے كي تلقين كي تھي, ليكن زبان كي حد تك پاكستان اور قائد اعظم كي محبة كے گن گانے والے سيكيولر ذهنية كے مجنوؤں نے پچپن سال تك اس ملك ميں اسلامي قوانين كے نفاذ كي مخالفة كر كے پاكستان كے اساسي نظريے سے دشمني كا جو رويہ اپنا ركھا ہے اس پر انہيں شرم نہيں آتي, اس رويے كے مقابلے ميں تو كانگريس كا كردار اور رويہ بھي ہيچ ہے, وہ كھلي هوئي مخالفة تھي تو يہ منافقة ہے.

جہاں تك قيام پاكستان ميں علماء كے كردار اور جدوجہد كا تعلق ہے تو يہ برضغير كي تاريخ كا ايك تابنده باب ہے اور يہ اس خطے ميں اسلام اور مسلمين كي بقاء كي اس شاندار جدوجہد كا ايك حصه ہے جس كا آغاز حضرة مجدد الف الثاني رحمه الله نے جہانگير كے دور ميں فرمايا تھا اور جسے حضرة شاه ولي الله كي علمي فكري اور سياسي جدوجہد, حضرة سيّد احمد شهيد اور شاه اسماعيل شهيد رحمهم الله كي جهادي تحريك وقربانيوں اور حضرة شيخ الهند محمود حسن ديوبندي رحمه الله كي تحريك ريشمي رومال والي شاندار سياسي جدوجہد نے ايك تسلسل بخشا. پاكستان كي تحريك ميں بھي علماء نے جو حصّه ملايا وہ اسي عظيم مقصد كيلئے تھا جس كے لئے ماضي ميں يہ سنگهائے ميل اور نشانهائے منزل نصب كئے گئے تھے, خود علماء كي يہ جدوجہد بھي منزل كا پتہ دينے والے ان نشانات ميں سے ايك نشان ہے. علماء نے اسلامي تهذيب وتشخص كي حفاظة اور قرآن وسنة كي حاكمية قائم كرنے كيلئے تحريك پاكستان سے پہلے بھي جدوجہد كي, اس مقصد كيلئے تحريك پاكستان ميں بھي بھرپور حصه ليا اور آج بھي اسي مقصد كے حصول كيلئے ميدان عمل ميں موجود ہيں. جن كي منزل ذاتي يا گروہي مفادات تھے ان كي منزل انہيں مل چكي اور وہ دودھ پينے اور اس ملك وقوم كا خون چوسنے ميں مصروف ہيں ليكن علماء كي منزل كچھ اور تھي جو اب تك انہيں نہيں مل سكي, اس لئے ان كا سفر بھي جاري ہے اور محنة وتگ ودو بھي. سوال يہ پيدا هوتا ہے كہ انگريز كي غلامي كے دور ميں اس منزل تك پہنچنے ميں انگريز مانع تھا, اس كے بعد هندوؤں كے غلبه اور ممكنه غلامي كا اس ميں آڑے آنے كا انديشہ تھا, جس كے باعث علماء كي بڑي تعداد اور اهل الاسلام كي اكثرية نے دو قومي نظريے كا ساتھ دے كر مسلم ليگ كو كامياب كرايا. اب ٥٥ سال سے پاكستان دنيا كے نقشے پر موجود ہے جس پر نہ انگريز كي حكومة ہے نہ هندو كي اور نہ كانگريس كي, پھر ابھي تك وہ منزل كيوں دور ہے جس كے لئے تحريك پاكستان چلائي گئي تھي اور اسلام كا وہ نظام كيوں نافذ نہ هوسكا جس كا بمع قائد اعظم تمام مسلم ليگي قائدين نے وعده كر كے علماء كو اپنے ساتھ ملايا تھا اور مسلمانوں كي اكثرية كي حماية حاصل كي تھي, اس ميں اب تك كون مانع اور ركاوٹ بنا هوا ہے اور كيا وہي لوگ في الحقيقة پاكستان اور نظريہء پاكستان كے مخالف نہيں ہيں جو اس ملك ميں اسلام كي راه روكے اور سيكولرازم كو گلے لگائے بيٹھے ہيں؟
يہ مفاد پرست گروہ علماء حق كي خدمات كا انكار اور گاہے بگاہے انہيں پاكستان كي مخالفة كے طعنے دے كر انہيں بدنام كرنے كي كوشش كرتا آيا ہے, ليكن اس نے خود اپني حركتوں پر كبھي غور نہيں كيا كہ وہ آج تك اس ملك ميں دو قومي نظريے كے عملي اطلاق كي راہ ميں ركاوٹ بن كر كانگريسي علماء اور سياستدانوں سے بڑھ كر پاكستان مخالف كا كردار ادا كر رہا ہے. متحده قومية كي حماية اور تقسيم هند كي مخالفة كرنے والے علماء نے بھي پاكستان كے بن جانے كے بعد اس كي حفاظة اور استحكام كو ضروري قرار ديا اور پاكستان كے علماء اور عامة المسلمين كو اس كے استحكام اور مضبوطي كيلئے كوشش ومحنة كرنے كي تلقين كي تھي, ليكن زبان كي حد تك پاكستان اور قائد اعظم كي محبة كے گن گانے والے سيكيولر ذهنية كے مجنوؤں نے پچپن سال تك اس ملك ميں اسلامي قوانين كے نفاذ كي مخالفة كر كے پاكستان كے اساسي نظريے سے دشمني كا جو رويہ اپنا ركھا ہے اس پر انہيں شرم نہيں آتي, اس رويے كے مقابلے ميں تو كانگريس كا كردار اور رويہ بھي ہيچ ہے, وہ كھلي هوئي مخالفة تھي تو يہ منافقة ہے.

جہاں تك قيام پاكستان ميں علماء كے كردار اور جدوجہد كا تعلق ہے تو يہ برضغير كي تاريخ كا ايك تابنده باب ہے اور يہ اس خطے ميں اسلام اور مسلمين كي بقاء كي اس شاندار

 
AdminDate: Thursday, 2009-05-07, 1:47 PM | Message # 4
Private
Group: Administrators
Messages: 7
Awards: 0
Reputation: 0
Status: Offline
[r]جدوجہد كا ايك حصه ہے جس كا آغاز حضرة مجدد الف الثاني رحمه الله نے جہانگير كے دور ميں فرمايا تھا اور جسے حضرة شاه ولي الله كي علمي فكري اور سياسي جدوجہد, حضرة سيّد احمد شهيد اور شاه اسماعيل شهيد رحمهم الله كي جهادي تحريك وقربانيوں اور حضرة شيخ الهند محمود حسن ديوبندي رحمه الله كي تحريك ريشمي رومال والي شاندار سياسي جدوجہد نے ايك تسلسل بخشا. پاكستان كي تحريك ميں بھي علماء نے جو حصّه ملايا وہ اسي عظيم مقصد كيلئے تھا جس كے لئے ماضي ميں يہ سنگهائے ميل اور نشانهائے منزل نصب كئے گئے تھے, خود علماء كي يہ جدوجہد بھي منزل كا پتہ دينے والے ان نشانات ميں سے ايك نشان ہے. علماء نے اسلامي تهذيب وتشخص كي حفاظة اور قرآن وسنة كي حاكمية قائم كرنے كيلئے تحريك پاكستان سے پہلے بھي جدوجہد كي, اس مقصد كيلئے تحريك پاكستان ميں بھي بھرپور حصه ليا اور آج بھي اسي مقصد كے حصول كيلئے ميدان عمل ميں موجود ہيں. جن كي منزل ذاتي يا گروہي مفادات تھے ان كي منزل انہيں مل چكي اور وہ دودھ پينے اور اس ملك وقوم كا خون چوسنے ميں مصروف ہيں ليكن علماء كي منزل كچھ اور تھي جو اب تك انہيں نہيں مل سكي, اس لئے ان كا سفر بھي جاري ہے اور محنة وتگ ودو بھي. سوال يہ پيدا هوتا ہے كہ انگريز كي غلامي كے دور ميں اس منزل تك پہنچنے ميں انگريز مانع تھا, اس كے بعد هندوؤں كے غلبه اور ممكنه غلامي كا اس ميں آڑے آنے كا انديشہ تھا, جس كے باعث علماء كي بڑي تعداد اور اهل الاسلام كي اكثرية نے دو قومي نظريے كا ساتھ دے كر مسلم ليگ كو كامياب كرايا. اب ٥٥ سال سے پاكستان دنيا كے نقشے پر موجود ہے جس پر نہ انگريز كي حكومة ہے نہ هندو كي اور نہ كانگريس كي, پھر ابھي تك وہ منزل كيوں دور ہے جس كے لئے تحريك پاكستان چلائي گئي تھي اور اسلام كا وہ نظام كيوں نافذ نہ هوسكا جس كا بمع قائد اعظم تمام مسلم ليگي قائدين نے وعده كر كے علماء كو اپنے ساتھ ملايا تھا اور مسلمانوں كي اكثرية كي حماية حاصل كي تھي, اس ميں اب تك كون مانع اور ركاوٹ بنا هوا ہے اور كيا وہي لوگ في الحقيقة پاكستان اور نظريہء پاكستان كے مخالف نہيں ہيں جو اس ملك ميں اسلام كي راه روكے اور سيكولرازم كو گلے لگائے بيٹھے
 
Forum » اعتراضات » علما پر اعتراضات کا جواب » Shan e Ulama p2
  • Page 1 of 1
  • 1
Search:


Copyright@RaddEBatilah © 2024