....
................
Site menu
Main » Articles » بریلویت » بریلویت پر مضامین

Ya Rasool Allah ka naza lgana kesa hy

ان میں سے ایک مشہور مسئلہ یہ ہے کہ “یا رسول اللہ” کہنا جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں میری رائے یہ ہے کہ “یا رسول اللہ” کہنے کی کئی صورتیں ہیں، اور سب کا حکم ایک نہیں۔ مثلاً: ایک صورت یہ ہے کہ شعراءاپنے تخیل میں جس طرح کبھی بادِ صبا کو خطاب کرتے ہیں، اور کبھی پہاڑوں اور جنگلوں کو، کبھی حیوانات اور پرندوں کو، ان میں سے کسی کا یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ جن کو وہ خطاب کر رہے ہیں، وہ ان کی بات کو سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں، بلکہ یہ محض ایک ذہنی پرواز اور تخیلاتی چیز ہوتی ہے، جس پر واقعاتی اَحکام جاری نہیں ہوتے۔ اسی طرح شعراءکے کلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، یا دیگر مقبولانِ اِلٰہی کو تخیلاتی طور پر جو خطاب کیا جاتا ہے، میں اس کو صحیح اور دُرست سمجھتا ہوں۔
دُوسری صورت یہ ہے کہ جس طرح عشاق اپنے محبوبوں کو خطاب کرتے ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اظہارِ محبت کے لئے خطاب کیا جائے، واقعتا ندا مقصود نہ ہو، یا جس طرح کہ کسی مادرِ شفیق کا بچہ فوت ہوجائے تو وہ اس کا نام لے کر پکارتی ہے، وہ جانتی ہے کہ اس کی آہ و بکا کی آواز بچے کی قبر تک نہیں پہنچ رہی، اس کے باوجود وہ اپنی مامتا کی وجہ سے ایسا کرنے پر گویا مجبور ہے۔ اسی طرح جو عشاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عشق میں واقعی جل بھن گئے ہوں اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارے بغیر کسی کروَٹ چین ہی نہ آئے، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی آہ و بکا سامعہ مبارک تک نہیں پہنچتی، ان کا “یا رسول اللہ” کہنا بھی جائز ہوگا، بشرطیکہ عقیدے میں فساد نہ ہو۔
ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص “الصلٰوة والسلام علیک یا رسول اﷲ” کے صیغے سے دُرود شریف پڑھتا ہے، اور خیال کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس دُرود کو بارگاہِ اقدس میں پہنچادیں گے، اس کے اس فعل کو بھی ناجائز نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:۔
مَن صَلّٰی عَلَیَّ عِندَ قَبرِی سَمِعتُہ وَمَن صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا اُبلِغتُہ۔ (مشکوٰة ص:۷۸)
ترجمہ: “جو شخص مجھ پر میری قبر کے پاس دُرود پڑھے، میں اسے خود سنوں گا، اور جو شخص مجھ پر دُور سے دُرود شریف پڑھے، وہ مجھے پہنچایا جائے گا۔”
ایک اور حدیث میں ہے:
اِنَّﷲِ مَلَائِکَةً سَیَّاحِینَ فِی الاَرضِ یُبَلِّغُونِی مِن اُمَّتِی السَّلَامَ۔ (مشکوٰة ص:۶۸)
ترجمہ: “بے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے زمین میں پھرتے رہتے ہیں، اور میری اُمت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں۔”
ایک اور حدیث میں ہے
لَا تَجعَلُوا بُیُوتَکُم قُبُورًا وَلَا تَجعَلُوا قَبرِی عِیدًا وَصَلُّوا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوتَکُم تُبَلَّغَنِی حَیثُ کُنتُم۔
(مشکوٰة ص:۶۸)
ترجمہ: اپنے گھروں کو قبریں نہ بناو¿، اور میری قبر کو عید میلہ نہ بنالینا، اور مجھ پر دُرود شریف پڑھا کرو، کیونکہ تم جہاں سے بھی دُرود پڑھو، وہ مجھے پہنچادیا جاتا ہے۔
اگرچہ اس کے لئے بھی صحیح طریقہ یہی ہے کہ دُرود و سلام بھیجنے کا جو طریقہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، اسی کو اختیار کرے، غائبانہ دُرود میں خطاب کا صیغہ استعمال نہ کرے، اس کے باوجود اگر اس کے عقیدے میں کسی قسم کا فساد نہیں، یا اس کے فعل سے کسی دُوسرے کے عقیدے میں بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں، تو اس کے “یا رسول اللہ” کہنے کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، ہاں! اگر فسادِ عقیدہ کا اندیشہ ہو تو ناجائز کہے بغیر چارہ نہیں۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اس نیت سے “یا رسول اللہ” کہتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر شخص کی، ہر جگہ سنتے ہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر ہیں اور ہر شخص کی، ہر جگہ سنتے ہیں، میں اس صورت کو صحیح نہیں سمجھتا۔
یہ عقیدہ جیسا کہ میں پہلے بتاچکا ہوں، غلط ہے، اور قرآنِ کریم، حدیثِ نبوی اور فقہِ حنفی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ چونکہ عوام حدود کی رعایت کم ہی رکھا کرتے ہیں، اس لئے سلف صالحین اس معاملے میں بڑی احتیاط فرماتے ہیں، صحیح بخاری میں سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد نقل کیا ہے:
“جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے، ہم التحیات میں “السلام علیک ایہا النبی” پڑھا کرتے تھے، مگر جب آپ کا وصال ہوگیا تو ہم اس کے بجائے ”السلام علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ کہنے لگے۔” (ج:۲ ص:۶۲۹)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا مقصد اس سے یہ بتانا تھا کہ “التحیات” میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے صیغے سے سلام کیا جاتا ہے وہ اس عقیدے پر مبنی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و موجود ہیں، اور ہر شخص کے سلام کو خود سماعت فرماتے ہیں، نہیں! بلکہ یہ خطاب کا صیغہ اللہ تعالیٰ کے سلام کی حکایت ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شبِ معراج میں فرمایا تھا۔
“یا رسول اللہ” کہنے کی پانچویں صورت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضر ہوکر مواجہ شریفہ کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھے: “الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اﷲ” چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روضہ اطہر میں حیات ہیں، اور ہر زائر کے سلام کو سماعت فرماتے اور اس کا جواب مرحمت فرماتے ہیں، اس لئے وہاں جاکر خطاب کرنا نہ صرف جائز بلکہ احسن ہے۔
یہ ہیں وہ چند صورتیں، جن میں سے ہر ایک کا حکم میں عرض کرچکا ہوں۔ اب ہمارے یہاں جو لوگ “یا رسول اللہ” کہتے ہیں، وہ کس نیت؟ کس کیفیت؟ اور کس مقصد سے کہتے ہیں؟ اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ البتہ یہاں دو مسئلے اور عرض کردینا ضروری ہے۔
ایک یہ کہ شیعہ صاحبان نے نعرہ حیدری یا علی ایجاد کیا تھا، بعض لوگوں نے ان کی تقلید میں نعرہ رسالت یا رسول اللہ اور نعرہ غوثیہ یا غوث ایجاد کرلیا۔ مگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ اور اَئمہ ہدیٰ کی زندگی میں کہیں نظر نہیں آیا کہ ”اللہ اکبر“ کے سوا مسلمانوں نے کسی اور نام کا نعرہ لگایا ہو، نہ قرآنِ کریم، حدیثِ نبوی اور فقہِ حنفی یا کسی اور فقہ میں اس کا ذکر ہے۔ اس لئے میں اسے شیعوں کی تقلید سمجھتا ہوں، جس سے اہلِ سنت و الجماعت بالکل بَری ہیں۔

Category: بریلویت پر مضامین | Added by: Admin (2009-05-07)
Views: 742 | Comments: 1 | Rating: 4.0/1 |
Total comments: 1
1 Syed Mujahid Hussain Shah Gilani  
0
اسلام و علیکم
الحمد للہ کافی مفید ،سبق آموز اور مدلل معلومات سامنے آئی ہیں جن پر پورے یقین کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

Only registered users can add comments.
[ Registration | Login ]
E>

Copyright@RaddEBatilah © 2024